Tuesday, October 19, 2010

دساں میں تینوں

دوستوٝ میں کچھ عرصے سے اپنے ملک کے حالات دیکھ کر سوچتا تھا کہ آخر ایسی کون سی وجہ ہے جو پاکستان آج اس موڑ پر کھڑا ہے کہ اس میں انارکی ہی انارکی ہے۔ امن سکون کا دو ر دور تک کوئی نام و نشان ہی نظر نہیں آتا۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو کھانے کو دوڑتا ہے۔معاشرے میں اخلاق نام کی کوئی چیز ہی نظر نہیں آتی ۔ آخر پاکستان کے حالات ہی کیوں ایسے ہیں؟
 جہاں تک میں نے محسوس کیا ہے ان سب کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ کہ ہم میں ٴٴبرداشتٴٴ کی اشد کمی ہے۔ برداشت کی کمی ہماری قوم میں ایسی ہے جیسے کسی بچے میں ©ٴٴ©آیوڈینٴٴ کی کمی ہو۔ کوئی بھی ایک دوسرے کو اور ایک دوسرے کی  بات کو برداشت نہیں کرتا۔ چاہے وہ کھلاڑی ہوں، سیاستدان ہوں یا عام عوام سب برداشت کے مادے کی کمی شکار ہیں۔ عام حالات میں تو عوام میں برداشت کی کمی ہے مگر مذہب کے بارے میں یہ کمی بہت خطرناک صورت اختیار کر جاتی ہے۔
ہمارے یہاں اکثر لڑکوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ کوئی لڑکی ان کی طرف نہیں دیکھتی، بھائی وہ بھی کیا کرے کوئی دیکھنے والی چیز ہو تو دیکھے نا، لیکن اگر یہی جسارت کوئی لڑکا کر لے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ مجھے کیوںگھور رہا ہے  ٟاس کی ماں کی، اس کی بہن کی،ٞاور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور اگر یہ معاملہ تھوڑا طویل ہو جائے تو پھر صورتحا ل کچھ یوں ہوتی ہے
اوئے کی تکناں ایں؟
دوسرا بندا جو اس سے بھی ٴٴتتاٴٴ ہوتا ہے 
دساں میں تینوں
لو جی لڑائی شروع، یہ سب تو روزمرہ زندگی کا ایک حصہ سا بن چکا ہے اس لئے ہم ان باتوں کو زیادہ محسوس نہیں کرتے۔اگر کوئی ہم سے آگے نکل جائے تو ہم سے برداشت نہیں ہوتا۔ مذہبی معاملات کا تو آپ سب کو علم ہے ہی جتنا ہم ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں وہ آپ سب جانتے ہی ہیں۔
 میں یہاں ایک بات بتاتا چلوں کہ میں تقریباً 3 یا 4 سال سے Facebook نامی منشیات کا عادی ہوں ۔ جو کہ اپنے آپ میں ہی ایک بہت دلچسپ دنیا ہے۔ عدم برداشت کی بہت سی  مزیدار اور خوفناک مثالیں بھی یہی ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر دو لوگ ٟمیرا مطلب لڑکا لڑکیٞ کسی گروپ یا کسی تصویر پر Comments, Comments کھیل رہے ہوتے ہیں تو ایوئیں چوتھے محلے سے کوئی لڑکا جو یہ سب دیکھ رہا ہوتا اس سے برداشت نہیں ہوتا اور وہ دونوں کی گفتگو میں کود پڑتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ وہ صورتحال کو جتنا خراب کر سکتا ہے کرےٟتسی سمجھ تے گئے ہووو گے ٞ۔ 
بندہ پوچھے ٴٴماماں تینوں کی اےٴٴ
Facebook  پر ایک صورتحال بہت خطرناک ہوتی جا رہی ہے جو کہ  دین اسلام سے متعلق ہے ایک تو مغرب کی جانب سے آئے دن اسلام کے خلاف نت نئی سازشوں کا پرچار ہے اور دوسری وجہ کچھ ہم لوگ خود ہیں۔ مثلاً اگر کسی نے Comments کے دوران غلطی سے allah لکھ دیا تو فوراً کوئی بندا اسے گناہِ کبیرہ کا مرتکب قرار دے دے گا اور کہے گا ٴٴاوئے اللہ کا ٴٴAٴٴ کیپیٹل میں لکھا کر ،کیسا مسلمان ہے توٴٴ ارے بھائی ہو جاتی ہے غلطی 
اتنا تو اللہ بھی ناراض نہیں ہوتا ہو گا جتنا اس کا بندہ ناراض ہو جاتا ہے۔
اور اگر کوئی شخص تھوڑی سی آزاد ذہنیت کا مالک ہے اور اس نے اس کا اظہا ر Facebook پر کر دیا تو بجائے اس کو پیار سے سمجھانے کے بس لگا دیا جاتا ہے اس پر کفر کا فتوہ اور  Live  گا لیاںشروع ہو جاتی ہے۔ اس کا موقف سننا بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ گالیاں نکال کر فخر اور سکون محسوس کیا جاتا ہے جیسے کوئی بہت بڑی نیکی کی ہے اور اس نیکی کے عوض جنت تو پکی ہے اپنی۔ کبھی یہ نہیں سوچا کہ یار دوسرے شخص کے دل پر کیا گزری ہو گی ۔ اگر کوئی دین کی طرف آنا بھی چاہتا ہو تو وہ ایسی صورتحال دیکھ کر بھاگ جاتا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ٴٴبرداشت ٴٴ کا لفظ کبھی ہمارے ڈکشنری میں تھا ہی نہیں۔ ایسی صورتحال میں مجھے تو اکثر سوچ کر خوف آتا ہے کہ اگر یہ لوگ آمنے سامنے ہوتے تو کیا ہوتا؟ 
میں بھی اللہ کا شکر ہے مسلمان ہوں مجھے بھی محسوس ہوتا ہے کہ کچھ غلط ہو رہا ہے لیکن بات یہ ہے کہ ہم کیسے اس مسئلے کو سمیٹتے ہیں، گالیاں نکال کر یا پیار سے سمجھا کر 
یہاں ہر کوئی ایک ہاتھ میں اسلام کی تلوار اور دوسرے ہاتھ میں دنیا کے ٴٴمزےٴٴ لے کر جنت میں جانا چاہتا ہے اور اس کےلئے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ یہاںبھی ہر کوئی ٴٴشارٹ کٹٴٴ کے چکر میں ہے۔
ایک لمحے کو ہمیں سوچنا چاہیئے کہ ہم جس ہستیۖ کی امت ہیں وہ تو برداشت کا ایک اعلیٰ نمونہ ہیں ۔ پتھر کھا کر بھی چپ رہتے تھے، لوگ آپػ پر کوڑا بھی پھینک دیتے آپػ پر تو برا نہیں مانتے تھے۔ آپػ نے تو کسی کو کافر قرار نہیں دیا، نہ ہی کسی کافر کو بدتمیزی کرنے پر قتل کیا یہاں تک کہ کبھی کسی کو برا بھلا بھی نہیں کہا نتیجتاً کتنے ہی لوگ آپػ کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گئے۔ ہم لوگوں میں وہ حسن سلو ک کیوں نظر نہیں آتا؟ ہم لوگ بات تو کرتے ہیں دنیا کو مسلمان کرنے کی مگر جو مسلمان ہیں ان کو ہم  برداشت نہیں کرتے۔ ہم میں تو برداشت نام کی کوئی چیز ہیں نہیں۔ اگر ہم صرف حضور ۖ کی سنت سمجھ کر ہی ایک دوسرے کو برداشت کر لیں تو ہمارا معاشرہ کافی حد تک سدھر سکتا ہے۔
کیا خیال ہے؟

Monday, October 18, 2010

Thai PM due in court as party faces ban threat

BANGKOK: Thailand's prime minister is due in court on Monday as his Democrat Party faces a corruption case that could lead to its dissolution and cause fresh upheaval in the deeply divided kingdom.

Abhisit Vejjajiva will be a witness for the defence at the Constitutional Court in what is expected to be the final hearing in the case which centres on
claims of misuse of a 29-million-baht (900,000 US dollar) state grant in 2005.

The Democrats -- Thailand's oldest party -- could be dissolved if found guilty, while the premier, who was deputy leader of the party at the time, could be handed a five-year ban from politics, alongside other executives.

Thailand's Election Commission (EC) in April called for the party to be abolished over the claims as well as a separate case alleging an undeclared political donation.

The Democrats are accused of paying 23 million baht to advertising firms, despite only having permission to spend 19 million on billboard marketing.

Abhisit has rejected accusations that a member of his party had attempted to influence the judiciary over the case and predicted a verdict next month.

Judicial rulings have played a pivotal role in shaping the kingdom's political landscape in the past.

The Democrats came to power two years ago after court decisions ousted allies of fugitive ex-premier Thaksin Shinawatra, who was dislodged in a 2006 military coup.

Two premiers were deposed from office by the judiciary in 2008 -- one of whom, Samak Sundaravej, was removed for taking payments for hosting TV cooking shows.

Uncertainty over the government comes at a difficult stage for the country, which remains bitterly torn in the wake of deadly protests.

April's EC intervention coincided with a tense standoff between troops and "Red Shirts", which descended into violence that left over 90 people dead and almost 1,900 injured during two months of unrest.

The Reds accuse Abhisit's government of being undemocratic because it came to power in a parliamentary vote after the controversial court rulings and their protests have called for immediate elections.

Observers question whether powers thought to support Abhisit's ruling coalition -- including the military and Yellow Shirt movement, representing the Bangkok elite in palace circles -- would allow the Democrats to be toppled.

Author and former Thai diplomat Pavin Chachavalpongpun said he does not believe the party will be disbanded.

"What is the point of staging a military coup in the first place when they know the party they rely on will have to be dissolved?" he said.

However, he said one potential motive would be as a gesture to the Red Shirts to rebuff allegations of double standards in the legal system.

Pavin said "even then, they will have a plan B", with rumours that a new party would swiftly rise from the ashes of the old.